پریا کی چدائیGand Men Lund Dia Gand Mari


رات کے بارہ بجانے کو تھے. مادھوي آئی نہیں. گگادھر اور کیلاش چلے گئے سونے کے لئے مجھے تیسرے مذلے پر کمرہ دیا تھا، جو گھر کے پچھلے حصے میں تھا. باتھ روم میں جا کا پہلے میں نے مٹھ مار کر لںڈ کا پریشر کم کیا، پھر روم میں آ کر سو گیا. میرے کمرے کے پیچھے گچچھي تھی. مجھے نیند آنے لگی تھی کی میں نے کچھ آواز گچچھي سے آتی سنی. میں سوچنے لگا کون ہو سکتا ہے گچچھي میں اتنی رات؟ اٹھ کر میں باہر نکلا. گچچھي میں کوئی تھا نہیں. اب ہوا کیا تھا کی آواز بگل والے گھر سے آ رہی تھی. یہ مکان دو مذلے کا تھا اس کا چھاتا ہماری گچچھي کے لیول میں تھا. مینے دیکھا کی چھاتے کے تھوڑے سے ٹائیلس جو پرانے ڈھںگ کے تھے وہ ہٹ گئے تھے. وہاں سے روشنی آ رہی تھی اور آواز بھی. میں دبے پاؤں جاکر دیکھنے لگا.
ساتھ والے گھر کا بڑا کمرہ دکھائی دیا. تین عورتیں اور دو آدمی سونے کی تیاریاں کر رہے تھے. ان کو چھوڑ میں اپنی چارپائی میں لیٹ کر سو گیا. دوسرے دن پتہ چلا کی بازو والے مکان میں جو پھےملي رہتا تھا اس کے مذلے لڑکے کی شادی تھی. اسی دن دوپہر کو بارات چلی، دوسرے گاؤں گئی اور تیسرے دن دلہن لئے پیچھے. مجھے اکیلا پا کر مادھوي نے کہا: بھیا، آج رات کھیل پڑے گا. دیکھنا ہے؟ میں: کون سا کھیل؟ ہستی ہوئی مادھوي بولی: اب انجانے مت بنی یہ. آپ کو پتہ تو ہے کی گچچھي سے بگلوالے مکان کا کمرہ دیکھا جا سکتا ہے میں: اس کا کیا؟ مادھوي: اس کا یہ کی آج رات وہاں سہاگ رات منائی جائے گی. ماجھالا لڑکا جو کل شادی کر کے آیا ہے وہ اس کمرے میں اپنی دلہن کو ....... کو ........ وہ کرے گا. مادھوي شرم سے لال لال ہو گئی میں: تجھے کیسے پتہ؟ مادھوي: وہ کمرے میں سب سے بڑا بھیا اپنی بہو کے ساتھ سوتا ہے وہ ان کا بیڈروم ہے کئی بار میں نے اور پاریش نے دیکھا ہے ان کو وہ کرتے ہوئے. تھوڑا سوچ کر میں نے کہا: مجھے دسري جگہ دینا سونے کے لئے اور تو جا کر ان کی چدا دیکھنا. مادھوي: نہیں بھائی، صرف دیکھنے میں کیا مجھا؟ آپ کو اتراذ نہ ہو تو ہم ساتھ میں دیکھیں گے؟ میں: مادھوي، ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے مؤسی کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا؟ مادھوي: اس کی پھكر نہ کیجئے. ممی رات کے نو بجے سو جاتی ہے جوڑوں میں درد کی وجہ سے کبھی سیڑھی چڑھتي نہیں ہے اور سہاگ رات دس بارہ بجے سے پہلے شروع ہونے والی نہیں ہے میں بھی سو جا اگي، لیکن بارہ بجے اٹھ جا اگي. میں: وہ تو صحیح لیکن ان کو دیکھ تجھے دل ہو گیا تو کیا کرو گی؟ میرے گلے میں باہیں ڈال آنکھوں میں آنکھیں ڈال وہ بولی: آپ وہیں ہوں گے نا؟ یا ....... کیلاش بھابھی مجھ سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟ اب بات یہ تھی کی مادھوي ویسے تو ایک عام لڑکی تھی. میں بھی اتنا خوبصورت نہیں ہوں ویسے بھی لڑکیاں مجھ پر دسري نظر ڈالتی نہیں ہے موقع ملا تھا چدا کا. کیوں نہ میں فائدہ اٹھا لوں؟ بہن یا نہ بہن، وہ خود آ کر چدوانا چاہتی ہو تو انکار کرنے والا میں کون بھلا؟ چدا کی سوچتے ہی میرا لںڈ تن نے لگا. مادھوي کی کمر پکڑ کر میں نے اسے کھینچ لیا. وہ مجھ سے لپٹ گی اس کی چچیاں میرے سینے سے


دب گیی اؤر میرا لںڈ ہمارے پیٹ درمیان فس گیا. اس کا کومل بدن باہوں میں لینا مجھے بہت میٹھا لگا. لڑکی اتنی ميٹھ ہو سکتی ہے وہ میں نے پہلی بار جانا. خیر، اس رات میں کئی چجھے پہلی بار جاننے والا تھا. میرے ہونٹوں پر ہلکا سا بوسہ کر کے میری باہوں سے چھوٹ کر وہ بھاگ گئی میں سوچتا رہ گیا کی اتنی تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ اتنی ميٹھ لگی تو پوری چدا کتنی مجھےدار ہوگی. باتھ روم میں جا کر مجھے مٹھ مارنی پڑی. بڑی اتےجاري سے میں رات کی راہ دیکھنے لگا. اتنا اتےذار تو وہ دولہا دلہن بھی نہیں کرتے ہوں گے. ویسے بھی میری بھی یہ پہلی چدا ہونے والی تھی نا؟ مادھوي مجھے چودنے دے تب؟ سارا دن میری بے چینی دیکھ مادھوي مسکراتی رہی. ایک دو بار اس نے اپنی چچیا دکھا دی. میرا لںڈ بیچارا کھڑا ہوا سو گیا،، كھدا ہوا، سو گیا، تھوک ٹپكاتا رہا. آخر ہم نے شام کا کھانا کھا لیا. سب سو نے چلے گئے میری آنکھوں میں نیند کہاں؟ دو تین بار جا کر دیکھ آیا کی اس بیڈروم میں کیا ہو رہا ہے دس بجے مادھوي آئی میں نے اسے باہوں میں لینا چاہا لیکن وہ بولی؛ جلد بازی میں مزا نہیں آئے گا. تھوڑا صبر کرو. میں تماري ہی ہوں آج کی رات. میں: مؤسی کو پتہ چل جائے گا تو؟ مادھوي: تو کچھ نہیں. وہ گاؤں میں ڈھڈھورا نہیں پٹےگي. میں: ایک کس تو دے. مادھوي: کس اکیلی ہی. زیادہ کچھ کروگے تو میں چلی جا اگي. میں نے مادھوي کے ہونٹ میرے ہونٹ سے چھوئے. ہاے، کتنے کومل اور میٹھے تھے

 اس کے ہونٹ؟ کیا کرنا وہ میں جانتا نہیں تھا ہونٹ چھوئے کھڑا رہا. مادھوي کو لیکن پتا تھا. اس نے زور سے ہونٹ سے ہونٹ رگڈ دئے اور اپنا منہ کھول میرے ہونٹ منہ میں لئے چاٹے اور چسے. مجھے گندا لگا لیکن میٹھا بھی لگا. چھوٹ نے کی کوشش کی میں نے لیکن مادھوي نے میرا سر پکڑ رككھا تھا. پوری ایک منٹ کسنگ کر وہ چھوٹي اور بولی: اهههه، مجھا آ گیا. ہے نا؟ پہلی بار کس کیا نا تم نے؟ بولے بغیر میں نے پھر سے کس کی. اس وقت مادھوي نے اپنی جیبھ نکال کر میرے ہونٹ پر گھماي. اوہ، اوہ، کیا اس کا اثر؟ میرا لںڈ ایسا تن گیا کی گویا پھٹ جائے گا. مادھوي نے پاجامے کے ارپار لںڈ پکڑ کر کہا: بھیا، تمارا یہ تو ابھی سے تیار ہو گیا ہے مجھ سے برداشت نہیں ہوا. میں نے اسے الگ کیا اور کہا: چلی جا مادھوي. مجھے یوں تڈپانا ہو تو بهےتر ہے کی تو چلی جا. اس نے میرا چهےرا ہاتھوں میں لیا. کچھ کہے اس سے پہلے میں نے ہاتھ ہٹا دیا اور پھر کہا: چلی جا، چودے بغیر اتنے سال گزارے هے، ایک دو سال اور سہی. مر نہیں جا اگا میں چودے بغیر. میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ستن پر رکھتے ہوئے وہ بولی: ناراض ہو گئے کیا؟ چلو اب میں نہیں اکسا اگي. معاف کر دو. اب سچ کہو، تمہیں چودنے کا دل ہے کے نہیں؟ میں: ہوا بھی ہو تو تجھے کیا؟ اتنے میں گچچھي سے لڑکیوں کی کھل کھل حس نے کی آواز آئی مادھوي نے کہا: چلو، اب کھیل شروع ہونے والا ہے ہم گچچھي میں گئے وہ آگے کھڑی رہی


 اور میں پیچھے. کمرے میں دلہن پلنگ پر بیٹھی تھی اور دولہا اس کے پیچھے بیٹھا تھا. اس کے ہاتھ دلہن کے کندھوں پر تھے. اس نے دلہن کے کان میں کچھ کہا. دلہن شرماي لیکن اس نے سر ہلا کر ہا کہی. چهےرا گھما کر دلہا نے دلہن کے منہ سے منہ چپکا دیا. کس لمبی چلی. دوران کندھے پر سے اتر کر دلہا کے ہاتھ دلہن کے ستنوں پر جا بیٹھے. دلہن نے اپنے ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دئے کسنگ کرتے کرتے دولہا نے چولی کے بٹن کھول دیا اور کھلی ہوئی چولی کے اںدر ہاتھ ڈال کر نںگے ستن تھام کیلئے دلہن دولہے کے سینے پر ڈھل گئی میں مادھوي کے پیچھے کھڑا تھا. میرے ہاتھ بھی اس کے کندھوں پر ٹیکے تھے. ادھر دولہے نے چھاتی پکڑے تو ادھر میں نے بھی مادھوي کے پستان پکڑ لیا. مادھوي نے میرے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی لیکن میں سمجھا نہیں. تھوڑی نو نا کے بعد اس نے مجھے چھاتی سهالانے گی لیکن جب میں نے نائیٹی کے هوكس پر ہاتھ لگایا تو وہ بولی: اب نہیں، اندر چلیں گے تب کھولنا. مادھوي کو سہارا دے کر میں اسے کمرے میں لے آیا

،،،،،،،،،،، کمرے میں آ تے ہی ہم ایک دوجے پر توٹ پڑے. اس نے میرا نائیٹ ڈریس اتار دیا، میں نے اس کی چولی اتار دی. میں نے دونوں چھاتی بے رحمی سے مسل ڈالے اور نيپلس کو چپٹ میں لے لی. میرا سات انچ کا سخت لںڈ دیکھ وہ بولی: ہائے، کیا لںڈ ہے تمارا بھیا. خام كوارا بھی ہے ہے نا؟ میں: كوارا ہی ہے اس نے ابھی تک چوت دیکھی تک نہیں ہے لںڈ ہاتھ میں لئے ہولے ہولے مٹھ مار تے ہوئے وہ مجھے دھکیل کر پلنگ تک لے گئی اور پلنگ پر گرا دیا. میں کچھ کہوں اس سے پہلے اس نے لںڈ منہ میں لے لیا. مجھ سے سہا نہیں گیا. میں نے کہا: مادھوي، ایسا کرو گی تو میں تیرے منہ میں ہی جھر جا اگا. اس نے ان ان کی آواز کی لیکن لںڈ چھوڑا نہیں. میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا. میں نے پھٹ سے ہاتھ اس کی بھوس پیر رکھ دیا اور كلےٹورس چپٹ میں پکڑ کر مسل ڈالی. چھٹپٹا نے کی اب اس کی باری تھی. آہ بھرنے جیسے اس نے منہ کھولا ویسے میں نے لںڈ نکال لیا. لگتا تھا کی اسے کچھ چھینا جھپٹ پسند تھی. میں نے اسے بستر پر پٹک دیا اؤر اپر چڑھ بیٹھا. وو لںڈ پکڑ نے آمادہ تھی، میں اس کے ہاتھ ہٹا دیتا تھا، آخر ایک ہاتھ میں اس کی دونوں كلايو پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے میں نے چھاتی پر چكوٹي کاٹ لی.
ئی ما کہتے ہوئے وہ تڑپ اٹھی. میں اس پر لیٹ گیا. میرے وزن سے اس کا بدن دب گیا اور وہ ہل نہ سکی. اس نے جاںگھیں جکڑ رككھي تھی. میرے گھٹنے اس کے پاؤں درمیان ڈال کر زور لگا کر میں نے اس کی رانیں چوڑی کر دی. رانیں چوڑی ہوتے ہی ریشمی گھاگھري نتںب تک اپر چڑھ گئی باقی رہی وہ میں نے ہاتھ سے ہٹا دی. اب لںڈ اور بھوس درمیان کچھ نہ رہا. کھلی بھوس سے لںڈ ٹکرایا. میرے دونو ہاتھ چھاتی پر دوڑتے تھے اسی لئے میں لنڈ پکڑے بغیر دھنا دھن دھکے دینے لگا. میں نے سوچا تھا کی ایسے ویسے لںڈ چوت میں گھسےگا تو صحیح. لیکن یہ نہ ہوا. لںڈ کا متھا بھوس پر ادھر ادھر سے ٹکرایا تھا، پھسل گیا لیکن اسے چوت کا منہ ملا نہیں. آٹھ دس دھکے بیکار گئے میری ادھيراي بڑھ گئی کیوں کی میں جھر نے سے قریب آ چکا تھا. میری ناكاميابي پر مادھوي حس رہی تھی. ہو سکتا ہے کی مادھوي جان بجھ کر اپنے نتںب ہلا کر نشانہ چكوا دیتی تھی. میں نے کہا: دیکھ، میں تیرے پیٹ پر لنڈ رگڈ کر جھر اگا، تجھے چودنگا نہیں. مینے دھکے لگانے شروع کئے. لںڈ پیٹ پر گھس نے لگا. تب اچانک اس نے اپنے پاؤں اٹھائے، اور وسیع کر دیا اور ایک ہاتھ میں لںڈ پکڑ کر صحیح نشانے پر دھر دیا. ایک ہی دھکے سے پورا لںڈ چوت میں گھس گیا. لنڈ کی ٹوپی اوپر چڑھ گئی مونس سے مونس ٹکرائی. مجھے آگے سيكھانے کی ضرورت نہ تھی. دوستو، جب خدا لںڈ دیتا ہے تو یہ بھی سیکھا دیتا ہے کی چدا کے دھکے کیسے مارے جاتے هے. چوت میں لںڈ گھستے ہی میری کمر کام پر لگ گئی میں رک نے کے موڈ میں نہیں تھا. میرا دماغ سر سے نکل کر لںڈ کے متتھے میں جا بیٹھا تھا اور اس پر چدا کا بھوت سوار ہوا تھا. وہ کہاں میری سنے؟ گھچا گھچچھ گھچا گھچچھ دھکے سے میں چودنے لگا. اپنی ٹانگیں میری کمر سے لپٹا کر نتںب ہلا کر مادھوي لںڈ لینے لگی اس کے منہ سے آہ، اوهوه، سی سی، آوازیں نکالنے لگی زور زور سے گہرے دھکے لگا کر میں نے مادھوي کو کس کر چودا. یہ چدا لمبی نا چلی. چار پانچ دھکے لئے کی وہ جھر پڑی. میں نے چھوڑنا جاری رككھا. دوسرے پانچ سات دھکے میں میں بھی جھر گیا. لںڈ سے ویرے کی پانچ سات پچکاریاں چھوٹي. میں ہوش گوا بیٹھا. اتنا لطف چدا میں ہوگا یہ میں نے سوچا نہیں تھا. لوگ اسے چھوٹی موت کہتے هے یہ سچ ہے ہم دونوں تھک گئے تھے لیکن یہ تھکان ميٹھ تھکان تھی. میں مادھوي کے بدن پر ڈھل گیا. تھوڑی دیر بعد ہوش آیا کی وہ نرم نازک لڑکی میرے بدن کا بوجھ نہیں جھیل سکے گی. میری کمر سے اس کی ٹانگیں چھڑا کر میں اترنے گیا. اس نے ٹانگیں زور سے جکڑ کر مجھے روک لیا. میری پیٹھ پر ہاتھ پھراتے ہوئے بولی: سوتے رہیے نا، اتنی کیا جلدی ہے؟ میں: میرا وزن لگے گا، تو دب جائے گی. مادھوي: تمہارا وزن بھی اچھا لگتا ہے مجھا آیا بہن کو چودنے میں؟ میں: بہت مجھا آیا. مجھے لگا کی میں مر جا اگا. مادھوي: ہلاک تمہارے دشمن. تھک گئے ہو کیا؟ میں: نہیں تو. کیوں؟ مادھوي: تمہارا وہ تو ابھی بھی کھڑا ہے ہے نا؟ اس کی بات سچ تھی. واقعی لںڈ کھڑا تھا، میں نے چوت میں دبا رككھا تھا. چوت میں ہلکے ہلکے سپدن ہوتے رہے تھے جس کا جواب لںڈ ٹھمكا لگا کر دے رہا تھا. میں: جی ہاں، یہ بے شرم ابھی جھکا نہیں ہے تیری چوت بھی پھٹ پھٹ کرتی ہے اوہ، سارے لںڈ میں ميٹھ ميٹھ گدگدی ہوتی ہے اور ایسا مےهسوس ایسا ہوتا ہے کے سارے لںڈ سے رس جھر رہا ہے تجھے کیسا لگتا ہے؟ مادھوي: تمہارے موٹے لنڈ سے میری چوت بھری بھری لگتی ہے مجھے بھی ساری بھوس میں گدگدی ہوتی ہے باتیں کرتے کرتے ہولے ہولے لںڈ پھر اندر باہر ہونے لگا. اب کی بار جلد بازی نہیں تھی. آرام سے میں چودنے لگا. بھوس کا پانی، لںڈ کی تھوک اور ڈھیر سارا ویرے چوت میں تھے. پچچھ پچچھ آواز سے

 لںڈ آتا جاتا تھا. میں نے سوچا تھا کی چدا کے وقت لںڈ کی ٹوپی چڑ اتر کرتی ہوگی. لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا. پہلی بار لںڈ گھسا تو ٹوپی چڑ گئی تھی سو چڈي ہی رہی تھی. ننگا متھا چوت کی دیواروں سے گھس پتہ تھا. میرے ہر دھکے کے ساتھ مادھوي اپنا نتںب اٹھا لیتی تھی. اس سے بھوس اوپر اٹھ جاتی تھی اور اصل تک کا لںڈ چوت میں گھس پاتا تھا. لںڈ نکلتے وقت وہ نتںب گرا دیتی تھی جس سے كلےٹورس لںڈ کی ڈانڈی سے گھس پاتی تھی. کبھی کبھی چوت کی گہرائی میں لںڈ دباي کے میں مونس سے مونس رگڈ لیتا تھا، اس وقت بھی كلےٹورس رگڈي جاتی تھی. دس منٹ کی ایسی مجھےدار چدا کے بعد چوت میں پھٹاكے ہونے لگے اور اس کے كلے ادھر ادھر ڈولنے لگے. مجھ سے لپٹ کر اپنی کمر کے جھٹکے لگا کر مادھوي لنڈ کو گھما نے لگی وہ بولی: مجھے اپر آ جانے دو اسے باہوں میں بھر کر میں نے پلٹي کھائی اور نیچے آ گیا. لںڈ چوت میں پھسا ہی تھا. كلے اٹھا گرا کر وہ چودنے لگی میں نے دونوں چھاتی تھام لئے اور نيپلس مسل ڈالی. تیزی سے وہ اورگاجھم کی طرف جانے لگی اس نے ایک بار پورا لںڈ باہر نکال کر ہاتھ میں پکڑ کر اپنی بھوس پر چاروں طرف رگڈ لیا خاص طور سے كلےٹورس پر اچانک اس نے لںڈ پھر چوت میں لے لیا، مجھ پر ڈھل پڑی اور کمر کے جھٹکے لگانے لگی يوني کے پھٹكے سے میں جان گیا کی اس کا اورگاجھم اب دور نہیں ہے پھر پلٹ کر میں اوپر آ گیا. وہ ٹھیک سے بول نہیں پائی لیکن اتنا کہا: چود ڈالو مجھے بھیا، چود ڈالو. پھاڑ دو میری چوت کو اپنے موٹے لنڈ سے، چود ہی ڈالو. میں دھکے کی رفتار بڑھا دوں اس سے پہلے مادھوي کو اورگاجھم ہو گیا. پانی بغیر کی مچھلی کی طرح وہ چھٹپٹانے لگی ناخون سے اس نے میری پیٹھ كھرچ ڈالی يوني تیزی سے پھٹ پھٹ کرنے لگی اور رس کا جھرنا بہانے لگی اس کا سارا بدن اکڑ گیا روے کھڑے ہو گئے میرے سینے میں دانت گاڑا دئے مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا کرنا اسی لئے اورگاجھم دوران میں رک گیا. تیس سیکنڈ کے بعد جب طوفان خاموش پڑا تو وہ تھک کر ڈھل پڑی. اورگاجھم کی لہریں ایک دو منٹ چلی. ذرا ہوش آیا تو وہ بولی: اوہ بھیا، کیا چودا تم نے؟ ایسی چدا میں نے کبھی نہیں کی تھی اب تک میں نے ہولے سے لںڈ نکالا اؤر چودنے لگا. پھٹی آنکھوں سے وہ دیکھنے لگی بولی: واہ، ابھی تم جھرے نہیں ہو؟ میں: نا. لےڈيذ فرسٹ. مجھے اب کوئی جلدی نہیں ہے اپنے پاؤں پسارے اس نے کہا: چودييے، آرام سے چودييے. مجھے بھی کیا جلدی ہے؟ اس کے بعد بیس منٹ تک میں نے مادھوي کو چودا. آخر میں بھی ذورو سے جھرا. میرے ساتھ مادھوي کو بھی ایک طرف چھوٹا سا اورگاجھم ہوا. نیند کب آئی وہ کسی کو پتہ نہ چلا. لںڈ چوت میں ہی تھا اور ہم دونوں سو گئے جب میری آنکھیں کھلی تب مادھوي میرے پہلو میں نہیں تھی. کمرے میں بتی جلتی تھی. میں ننگا پلنگ پر پڑا تھا. وہ چولی گھاگھري ڈالے باتھروم سے نکل آئی. مجھے نںگا دیکھ وہ حس پڑی. وہ بولی: صبح کے چار بجانے کو ہے میں چلتی ہوں تم سو جاؤ. میں: ایک کس بھی نہیں کرو گی؟ کس کرنے جیسے وہ پلنگ کے پاس آئی میں نے جھپٹ سے اسے کھینچ لیا. وہ نو نا کرتی رہی لیکن میں نے اسے میری گود میں لے لیا. ایک ہاتھ سے میں نے اس کی کلائی پکڑ رككھي. دوسرے ہاتھ سے گھاگھري کی ناری کھولنے لگا. مادھوي نے ہلکا سا احتجاج کیا. بولی: جانے بھی دو نا دیر ہو جائے گی. میں: ہونے دو ابھی تو میں نے تجھے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ہے مادھوي: اوہ، بھائی، تمہاری نظر پڑتے ہی مجے وہ کروانے کا دل ہو جاتا ہے میں: ہو جانے دو، میں کہاں دور ہوں؟ آخر میں نے ناری چھوڑ کر گھاگھري اتار پھےكي. اپنی ننگی بھوس ہاتھوں سے ڈھک کر وہ پلٹ گئی اس وقت میں نے اس کے ننگے نتںب دیکھے. دیکھتے ہی میرا لوڈا جاگ نے لگا.


 گول چكانے اور بھاری نتںب بڑے لبھاونے تھے. دونوں كلے پر میں نے ہاتھ فرايا. گہری درار میں انگلی پھراي. میں نے کھینچ کر مادھوي کو میرے پہلو میں لے لیا. میری طرف پیٹھ کر کے وہ میرے سینے پر ڈھل گئی میرا لنڈ اس کے كلے سے دب گیا. اب میرے ہاتھوں نے چولی کے ہوک کھول دئے اور نںگے ستن تھام لیا. وہ دونوں ہاتھ سے بھوس ڈھکے ہوئی تھی. میں نے زور لگا کر اس کے ہاتھ ہٹائے آر کہا: اب تو لںڈ لے چکی ہو، اب پيكي وجہ سے رمضان سے کیا فائدہ؟ مادھوي: شرم آتی ہے میں: ارے واہ، میرا لںڈ پکڑنے میں شرم نہ آئی اور اب؟ چل میں دیکھوں تو صحیح کی اتنا لطف جہاں سے ملتا ہے وہ جگہ کیسی ہے بھوس پر سے وہ ہاتھ نہیں ہٹتی تھی. لیکن میں نے چولی کھول دی تھی، اسے نکالے نے کے لئے اس نے ہاتھ اٹھانے پڑے. مادھوي چولی اتار رہی تھی کی میں نے میرا ہاتھ بھوس پر رکھ دیا. اس نے میری کلائی پکڑی لیکن مخالفت کی نہیں. میرا دوسرا ہاتھ چھاتی سهالانے لگا. لںڈ نے سر اٹھایا اور پانی بہانا شروع کر دیا. جوان لڑکی کے پستان میں پہلی بار دیکھ رہا تھا. مادھوي کی چھاتی بہت سیکسی لگ رہے تے. سینے کے سے بالا حصے پر لگے اس کے چھاتی درمیانہ قد کے تھے، مکمل گول تھے. چھاتی کے درمیان میں دو انچ کی بادامی کلر کی اےرولا تھی، اےرولا کے درمیان چھوٹی سی نازک نيپل تھی. اےرولا اور نيپل اس وقت ابھر آئے تھے. میں نے ہتھیلی میں لے کر ستن سہلایا اور چپٹ میں لے کر نيپلس مسلي. مادھوي نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور چھاتی کے ساتھ دبا دیا. میرے لوڈے نے پانی بہایا اور زیادہ تن گیا. میرا دوسرا ہاتھ بھوس سهالانے لگا. بھوس اتنی نرم ہوتی ہے یہ میں نے اس دن ہی جانا. تاجبي کی بات یہ ہے کی کومل ہوتے ہی بھوس مار کھا سکتی ہے چدا دوران مونس سے مونس ٹکراتی ہے تو دونوں کو مجھا آتا ہے میری انگلیاں بڑے ہوٹوں پر آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے ایسے گھوم چکی



. میں اچھی طرح بھوس دیکھنا چاہتا تھا، اسی لئے مادھوي کو لیٹا کر میں بیٹھ گیا. تھوڑی نو نا کے بعد مادھوي نے جاںگھیں اٹھائی اور چوڑی کر رككھي. اس کی مستانی بھوس میری نظر سامنے آئی. یوں تو مادھوي گوری ہے لیکن بھوس کا رنگ تھوڑا سا سانولا تھا. بڑے سنترے کے ٹکڑے جیسے بڑے ہونٹ بھرے ہوئے اور موٹے تھے. مونس اچي تھی. مونس پر اور بڑے هوت کے بیرونی حصے پر کالے گھگھرالے جھانٹوں تھے. ہونٹ درمیان کی درار تین انچ لمبی ہے جس میں جاولي رنگ کے پتلے نازک چھوٹے ہونٹ تھے. درار کے اگلے کونے میں آدھا انچ لمبی كلےٹورس تھی. ابھی ابھی چد گئی تھی پھر بھی كلےٹورس سخت تھی. چھوٹے بیر جیسا اس کا متھا بھوس کے پانی سے گلا تھا اور چمک رہا تھا. درار کے پچھلے کونے میں چوت کا منہ تھا جو سكڑا دکھائی دے رہا تھا. اتنی چھوٹی سوراخ میں موٹا لںڈ کیسے جا پایا تھا وہ میں سمجھ نہ سکا. میری انگلیاں جب بھوس سے کھیل رہی تھی تب مادھوي نے لںڈ پکڑ رككھا تھا. مجھے کیا تجویز پتہ نہیں، میں نے بھوس پر ہونٹ چپکا کر کس کیا. مادھوي تڑپ اٹھی اور بولی: چلو نا، کب تک دیکھا کرو گے؟ میں اب اس کی کھلی جاںگھیں درمیان آ گیا. لںڈ پکڑ کر میں چوت پر رکھنے جا رہا تھا کی ایک عجیب بات ہوئی. کون جانے کیوں، لںڈ سے ہوا نکل گئی اور نرم ہو گیا. میں گبھرا گیا، یہ کیا ہوا؟ نظر لگ گئی کسی کی میرے پیارے کو؟ میں نے کہا: مادھوي، یہ، یہ تو پھسس ہو گیا. کیا کریں گے اب؟ مادھوي جس کا نام، بولی: اوہ، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے گنگا بھیا نے اور کیلاش بھابھی نے مجھے بتایا ہے کہ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے ڈر نے جیسی بات نہیں ہے انہوں نے مجھے علاج بھی سکھایا ہے لیٹ جاؤ تم اور مجھے میرا کام کرنے دو. مجھے چت لیٹا کر وہ بیٹھ گئی نرم لوڈا پکڑ کر اس نے ٹوپی چڑھا دی اور متھا ننگا کیا. آگے جھک کر اپنی جیبھ نکلی اور متتھے پر پھراي. ہونٹوں سے متھا چہٹا. جب اس نے زبان سے فرےنم ٹٹولا تو میرے بدن میں بجلی سی دوڑ گئی لوڈے میں جان آنے لگی منہ کھول کر اس نے اکیلا متھا اندر لیا اور زبان اور تاللو کے درمیان دبا دیا. لوڈے کی ڈانڈی جو باہر رہی اسے مٹٹھ میں پکڑ کر مٹھ مارنے لگی جیسے لوڈے نے ہلکے سے ٹھمکے لگانا شروع کیا مادھوي نے لوڈا چوسنا شروع کیا. لوڈے میں عجب قسم کی گدگدی ہونے لگی اور وہ سخت ہونے لگا. دیکھتے دیکھتے میں لںڈ پورا تن گیا. مادھوي کا منہ لںڈ کی بڑی سائز سے بھر گیا. لںڈ کام رس بہانے لگا. مادھوي جب لںڈ چس رہی تھی تب میرا ہاتھ اس کی پیٹھ پر پھسل رہا تھا. ہولے ہولے ہاتھ اس کے نتںب پر پہنچا. ایک ایک کر میں نے مادھوي کے دونوں كلے سهلاے. بعد میں كلے کی درار میں گھس کر میری انگلیاں بھوس کرنے لگی میں نے مادھوي کی گاںڈ کا بند منہ ٹٹولا اور بھوس پر انگلیاں پھراي. اس وقت مادھوي کی بھوس اپنا پانی سے گیلی گیلی ہو گئی تھی. ادھر میرا لںڈ کھڑا ہوتا چلا تھا. میں نے مادھوي کے كلے میری طرف کھینچ کر ایک ران اٹھائی اور میرے سر کی دسري طرف رکھ دی. اب میرا سر اس کی جاںگھیں درمیان آ گیا. اس کی بھوس میرے منہ کے پاس آ گئی بھوس سے مست خوش بو آ رہی تھی. كلے پکڑ کر میں نے مادھوي کو ایسے كھسكاي کی میرا منہ بھوس پر لگ گیا. جیبھ نکال کر میں نے اچھی طرح بھوس چاٹی. مونس سے لے کر گاںڈ کے چھدرا تک آگے سے پیچھے اور پھر پیچھے سے آگے ایسے بڑے ہونٹ چاٹے. ہونٹ چوڑے کر کے درار میں جیبھ ڈالی. كلےٹورس سخت ہو گئی تھی، اسے ہوٹوں درمیان آسانی سے لے سکا.

كلےٹورس چس تے چس تے دو انگلیاں چوت میں بھی ڈالی. ادھر لنڈ تن کر لوہے جیسا بن گیا تھا، ادھر بھوس نے بھر مار رس بہایا تھا. جب مادھوي فرےنم پیر جیبھ پھراتي تھی اس وقت میرے بدن میں بجلی سی دؤڑ جاتی تھی اور میرے كلے ہل پڑتے تھے. اس کا بدلہ میں كلےٹورس کا چھوٹا متھا چس کر لیتا تھا. لںڈ سے بھرے منہ سے وہ کچھ بول نہیں سکتی تھی لیکن ان ان آواز کرتی تھی. اس کے كلے بھی ڈولنے لگے تھے. لںڈ نے جب ٹھمکے لگانے شروع کئے تو منہ سے نکال کر مادھوي پلٹي اور پلنگ پر چت لیٹ گی ہاتھ میں پکڑے لںڈ سے کھینچ کر مجھے اپنے بدن پر لے لیا اور بولی: ہو گیا نا تیار؟ اب چودے بغیر نہیں جھكےگا. لیکن اب کی بار دھیرے دھیرے چودنا .. اس نے اپنی رانیں چوڑی کر دی. مٹٹھ میں پکڑا لںڈ اس نے ساری بھوس پر رگڈا خاص طور پیر كلےٹورس سے. اسی وقت میں نيپلس چوسنے لگا. مادھوي کے منہ سے آہ نکل پڑی. میں نے کہا: زیادہ دیر لگاےگي تو میں چودے بغیر ہی جھر جا اگا.
بولے بنا اس نے لںڈ کا متھا چوت کے منہ پر دھر دیا. ایک ہاتھ میرے كلے پر دھر کر مجھے اپنی اور کھیںچا. مجھے آگے سکھانے کی ضرورت نہیں تھی .. ہلکا دباؤ سے ہولے ہولے میں لںڈ چوت میں ڈال نے لگا: تھوڑا اندر تھوڑا باہر، زیادہ اندر تھوڑا باہر ایسے ایک ایک انچ سركھا لنڈ ڈالتا چلا. مادھوي سے لیکن سہا نہیں گیا. اس نے اپنے نتںب کا ایک جھٹکا ایسا عائد کی گھچچھ سے لںڈ پورا چوت میں گھس گیا. میرے كلے پر دونوں ہاتھ رہ کر دبا رككھا. وہ بولی: ااه، ایسے مکمل کیوں نہیں پیل دیتے؟ کتنا میٹھا لگتا ہے؟ چوت کی سيكڈي دیواروں نے میرا لنڈ کس کر تھام لیا. سارے لںڈ سے جیسے رس جھرتا ہو ایسا مزا آنے لگا. پورا لںڈ چوت میں گھسیڈ کر میں تھوڑی دیر رک گیا اؤر چوت کے کومل لمس کا مجھا لیتے رہا. مادھوي نے پھر نتںب ہلائے اور چوت سكوڈ کر لںڈ دبوچا. اکیلا متھا چوت میں رہے اتنا لںڈ نے ہولے ہولے نکالا اور پھر ایک جھٹکے سے اندر گھسیڈ دیا. ایسے ذورو کے دھیرے دھکے سے میں نے مادھوي کو دس منٹ تک چودا. میری اتیجنا بڑھ گئی تھی، میں جھر نے سے قریب پہنچ گیا تھا. جھر نے سے بچنے کے لئے مجھے بار بار پورا لںڈ نکال دینا پڑتا تھا. مادھوي بھی کمر کے جھٹکے لگا کر لںڈ لے رہی تھی. اب وہ بولی: جلدی کرو نا، کیا یہ ضعیفوں کی طرح چود رہے ہو؟ پھر کیا کہنا؟ دھنا دھن تیز رفتار سے میں نے چودنا شروع کر دیا. سات آٹھ دھکے لگے ہوں گے کی مادھوي کو اورگاجھم ہو گیا. اپنے ہاتھ پاؤں سے مجھے اس نے جکڑ لیا لیکن میں رکا نہیں، چودتے چلا. دوسرے دس بار دھکے کے بعد لنڈ نے منی چھوڑ دیا. میرے ساتھ مادھوي بھی پھر جھري. مادھوي کو اگوش میں لئے سوتے رہنا بہت دل کرتا تھا. لیکن صبح ہونے کو تھی. مؤسی جاگ جائے اور ہم رنگے ہاتھ پکڑے جائیں ان سے پہلے پھٹا پھٹ کپڑے پہن کر مادھوي جانے لگی جاتے جاتے اس نے کس کر کے مجھ سے کہا: کلام دو بھیا، ہماری چدا کا راز تم کسی سے نہیں کہو گے، میری آنے والی بھابھی سے بھی نہیں. میں نے وعدہ کیا اور ان سے بھی لیا. دوسرے دن گگادھر اور کیلاش بھابھی نے ہم سب کو شام کے کھانے پر بلائے. وہاں کیا ہوا یہ پھر کبھی آپ سے بیان کر اگا. اتنا بتا دوں کی بھابھی نے ایک کتاب دی جس میں


 چدا کے مختلف اسنو کے فوٹو تھے. فوٹو کے مڈےل خوب صورت تھے. لڑکی کی بھوس صاف چكني تھی، ستن بڑے بڑے اور اعلی تھے. لڑکے کا لنڈ آٹھ انچ لمبا ہوگا. ڈانس کرتے ہو ویسی لگان سے وہ چدا میں لگے ہوئے تھے. گنگا بھیا نے کنڈوم کے کچھ پےكےٹ دیے روز رات مادھوي مجھے چدا کے نئے نئے لےسس دیتی رہی. کبھی کبھی گچچھي میں جا کر وہ نئے كپل کی چدا دیکھ لیتے تھے، کبھی موقع ملے تو دن دوران كوكي کر لیتے تھے. کبھی کیلاش بھابھی ہمارے گھر آتی تھی، کبھی ہم ان کے گھر بلا لیتی تھی. دس بارہ دن تک کم سے کم دن میں ایک بار میرے لںڈ نے ویرے کی پچکاریاں چھوڑ کر مجھے بے حد خوشی کروایا. آخری دن جب میں گھر واپس آنے نکلا تب مادھوي موجود نہیں تھی. اگلی رات اس نے کہا تھا کہ میرے جانے پر وہ شاید رو پڑے گی. میں نے تو وعدہ نبھایا. کچھ دو ماہ پہلے ریا مادھوي سے ملی. یہ سب کیسے ہوا یہ مادھوي آپ کو بتاےگي لیکن ایک بات پکی ہوئی: اس نے ریا سے ہماری چھڑاي کے بارے میں کہہ دیا. ایک ريت سے یہ اچھا ہی ہوا. میں وعدہ سے آزاد ہوا اور آپ کو یہ کہانی سنا سکا