میری کسٹمر رملا

میں آپ کو اپنے بارے میں بتا دوں کہ میں بہت خوبصورت نہیں ہوں لیکن بھرے پورے بدن کا مالک ہوں .
 میرا جنس ساڑھے سات انچ کا ہے .
 ایک بار میں اپنی ای میل چیک کر رہا تھا کہ مجھے ایک فون آیا . میں نے فون اٹھایا اور ہیلو بولا تو ادھر سے کسی لڑکی کی آواز آئی. وو بولی - میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں ، آپ سے ایک کام ہے . میںنے کہا - ٹھیک ہے ، بولو کب ملنا ہے ؟ وو بولی - شام کو ٹھیک 5 بجے ہوٹل میں ملتے ہیں . میںنے کہا - ٹھیک ہے . اور میں اس کے بتائے ہوئے ہوٹل پہنچ گیا . 
وہاں اس کے بتائے ہوئے ٹیبل پر میں نے دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی . میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا . میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا - رملا جی ؟ اس نے بولا - جی ہاں . میں نے اپنا نام بتایا اور اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا - کہیے، آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ؟ اور میرا نمبر آپ کس نے دیا ؟ وو بولی - آپ کا نمبر مجھے میری سہیلی ویشالی نے دیا ہے . میں سمجھ گیا کہ اسے کیا چاہیے . میں نے رملا کو بولا - کو میری خدمت کب چاہئے ؟ وو بولی - پہلے آپ میری بات سنو ، وہ سب میں بعد میں بتاوگي .

 میں بولا - ٹھیک ہے ، بولو . وو بولی - میری شادی کو 5 سال ہو گئے ہیں ، اور میں نے ابھی تک ماں نہیں بن سکی ہوں . مجھے آپ سے ایک بچے کی ماں بننا ہے . میں بولا - ٹھیک ہے پر اس کے لئے تو بہت بار مجھ سے ملنا ہوگا . کیا آپ مل سکیں گی ؟ اور اس کی فیس بھی بہت ہوگی . وو بولی - فیس کی کوئی بات نہیں ہے . پر کیا آپ ایک ماہ تک میرے ساتھ رہ سکتے ہیں ؟ میں نے کچھ سوچا اور پھر کہا - ٹھیک ہے ، آپ نے یہ سب سلسلہ کب سے شروع کرنا چاہیں گی ؟ اس نے میرا نمبر لے لیا اور بولی - میں آپ کو کال کروں گی .

 میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ وہ دیکھنے میں بہت ہی خوبصورت تھی . اس کی چتون کسی کو بھی ایک نظر میں زخمی کر سکتی تھی . اس کی چنچل اور شوخ ادا بہت ہی سیکسی تھی . اسکا پھگر 36-26-38 کا تھا . اس نے مجھے 3 دن بعد فون کیا اور بولی - میں 6 تاریخ کو باہر جا رہی ہوں . آپ کو میرے ساتھ ہی چلنا ہوگا . اس نے مجھ سے میرا بینک اکاؤنٹ نمبر مانگا . میں نے اسے دے دیا تو تھوڑی دیر میں اس نے مجھے پھر فون کر کے کہا کہ میرے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے جمع کر دیے ہیں . میں 6 تاریخ کو ایک ماہ کی چھٹی لے کر اس کے ساتھ گئے . ہم شہر کے ایک بڑے سے ہوٹل میں جا کر رک گئے . ہوٹل کے شاندار سوٹ میں پہنچ کر ہم دونوں سوفی پر بیٹھ گئے .

 رملا بولی - میں پھریش ہو کر آتی ہوں . میںنے کہا - ٹھیک ہے . تھوڑی دیر میں وہ باتھ سے باہر آئی تو میں اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا . 

میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی . کیا عذاب ڈھا رہی تھی وہ! بہت شہوانی، شہوت انگیز لگ رہی تھی . بالکل پردہ سا گلابی رگ کا ، پھرك جیسا نایلان کا ایک لباس ، جس میں اندر پیںٹی کے نام پر صرف ایک ازاربند بندھی تھی اور اس میں چوت کو ڈھاپنے مالیت ایک ریشمی گلاب کا پھول لگا تھا . اس کی چوچیاں ایک دم گول ،

 سامنے کو تنی ہوئی اور اس پر اس کے کشمش جیسے ایک دم سخت چچوك . مجھے لگا کہ میں اسے پٹک کر چود ڈالوں ، میرا کاروبار ایسا کرنے سے مجھے روکتا ہے ، تو میں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا . میں اسے نشیلی نظروں سے دیکھتا رہا . میری آنکھوں میں اس کی خوبصورتی کی تعریف کے انداز تھے . میری نظروں کو پڑھ کر اس کے منہ منڈل پر ایک خود اطمینان کا احساس آیا . اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر ، گروونمتت انداز سے چلتے ہوئے میرے پاس آکر مجھے خاموش دعوت دی . اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر میری چھاتی پر رکھی . میں نے اپنی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈال لیں تھیں . اس کی دودھ کی سی گوری اور ہموار پنڈلی کو میں نے اپنے ہونٹوں سے چوما . وہ سہر اٹھی . میں نے اپنی باہیں اس کی طرف پھےلاي اور وہ میرے پوائنٹس میں سما گئی .

 اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چومنے لگا . وہ میرا ساتھ دینے لگی . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب اس نے میرا لنڈ باہر نکال لیا . وہ سوفی سے نیچے بیٹھ کر میرے لنڈ چوسنے لگی . اس لنڈ کی پیاس بتا رہی تھی کہ وہ کام کی بہت گرسنہ ہے . میں نے بھی اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ، اپنے اوپر کے کپڑے اتار دئے . اس نے بھی میری پتلون کو اتار دیا . جلد ہی ہم دونوں مکمل طور پر ادمجات حالت میں تھے . اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا كرمے اس ایک چچوك کو اپنے ہونٹوں سے دبا کر چوسنے لگا اور وہ اپنے ہاتھ سے اپنے بببو کو پکڑ کر مجھے ایسے پلانے لگی جیسے میں اس کا بچہ هوو . ہولے سے اس کو بستر کے نرم اور ملائم توشک پر اس کو لیٹا دیا 

. اس نے بستر پر لےٹتے ہی اپنی ٹاںگے پھیلا لیں . وہ بہت گرم ہو گئی تھی . میں نے بھی اس کی ہوس کا خیال رکھتے ہوئے ، اس کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان میں اس کی ٹکڑا سی پھولی ، ایک دم گلابی اور ہموار بر پر اپنی ہتھیلی پھیری اور اپنی زبان سے اس کے پھڑکتے دانے کو چھو لیا .

 رس سے شرابور ہو رہی ، اس کی چوت کا نمکین سراو میں نے اپنی زبان سے چہٹا . اس کی ٹاںگے مچلنے کو ہوئیں ، پر میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی ٹانگوں کو ہلنے نہیں دیا اور اپنی پوری تنميتا سے اس کی چوت کو چھوٹنے پر مجبور کر دیا . اس سيتكارے مجھے اور بھی بھڑکا رہی تھیں . بار - بار اس کی کمر سے اوپر کو اٹھنے کو ہوتی ، گویا وہ میرے مکھ میں ہی اپنی چوت کو ضم کر دینا چاہتی ہو . میرے مسلسل چاٹنے سے اس کی چوت نے رس چھوڑ دیا اور وو جھڑ گئی . یہ میرا کام تھا کہ اس کو مکمل طور پر مطمئن کر دوں تاکہ اس کو کوئی شکایت نہ رہے . اب میں اٹھا اور اس کو چودنے کے لحاظ سے اپنا لؤڑا اسکی چوت کی درار پر لگا کر اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی خاموش منظوری پا کر میں نے اپنے عضو تناسل مںڈ کو اس بھگاكر سے رگڑا .

 وہ دوبارہ مچلي . میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت میں پےوست کر دیا ، اس کی چیخ نکل گئی . اس کا درد دیکھ کر میں نے اپنے لنڈ کو ذرا روکا اور اس کے چچوكو کو اپنے ہوںٹھوں سے چچورا . اس کو کچھ سکون ملا . میں نے دوبارہ اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اپنے کام کو آگے بڑھایا . اس بار میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جڑ دیئے تھے ، تاکہ کام میں کسی طرح کی وگھن نہ آئے . اس تڑپھ کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے تابڑ توڑ تین چار دھکے لگا دیے . اب میں رکا اور پھر اس کو سانس لینے دی . اس کی آنکھوں سے غم ملا خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے . میں تقریبا 20 یا 22 منٹ تک اسکو چودتا رہا . اس دوران وہ تین بار جھڑ چکی تھی . اس نے مجھ سے کہا -

 اب وہ تھک گئی ہے ، تمہارا کب ہو گا ؟ میں نے کہا - بس ، ابھی ہونے ہی والا ہے ! اور کچھ ہی دھکوں میں میں نے اپنا مکمل لاوا اس کی چوت میں بھر دیا . ہم دونوں نے پوری رات میں تین بار سهواس کیا اور تھک کر چور ہو کر نںگے ہی ایک دوسرے کی باںہوں میں باهے ڈال کر سو گئے . جب صبح ہم اٹھے تو وہ بولی - تم بہت ہی برے ہو ، دیکھو ، تم نے میرے جسم کے کیا حال بنایا ہے ! میں نے دیکھا اس کے جسم پر میری چدائی کے وقت کی نشانیاں تھیں اور اس کی چوت بہت سوج گئی تھی . میں مسکرا کر رہ گیا .
 ہم نے پورے ایک ماہ تک ساتھ رہ کر سسرگ کیا . اس حیض جب نہیں ہوئی تو کچھ دن بعد اس نے حمل ٹھہر جانے کی تفتیش کرنے والی کٹ سے خود کے پیٹ سے ہونے کی تصدیق کر لی . وہ کھل اٹھی .

 اس نے مجھ سے کہا - اب ہم کو واپس چلنا چاہئے . میرا مقصد مکمل ہو چکا ہے . اس نے بتایا کہ وہ پیٹ سے ہے . اس نے میرے اکاونٹ میں دو لاکھ روپے جمع کرا دیئے . قریب دس ماہ بعد اس کا فون آیا کہ اس نے میرے بیٹے کو جنم دیا ہے . تم پاپا بن گئے ہو . مجھے اس وقت ایک جھٹکا سا لگا . ایسا لگا کہ جیسے میں نے اپنے بیٹے کو فروخت ہو . آپ کو اپنی اگلی کہانی جلد ہی بھےجوگا . فی الحال آپ لوگوں سے میرے اس درد بھرے خوشی پر توجہ چاہوں گا .